جب سے انسان نے خلاء میں چھلانگ لگائی ہے۔ تب سے انسان بہت سے مُحیّر العُقُول عجائبات دیکھ چکا ہے۔ ان ہی میں سے ایک عجوبہ ہماری اپنی زمین بھی ہے۔ پہلے پہل زمین کو چپٹا مانا جاتا تھا۔ کیوں کہ تب تک نہ تو انسان خلا میں گیا تھا، نہ ہی انسان کے بنائے ہوئے مصنوعی سارچے (Satellites) زمین سے باہر جا کر اسے فلما سکے تھے اور نہ ہی دوربینیں موجود تھیں کہ جن کی مدد سے دوسرے سیاروں وغیرہ کی ساخت کو دیکھ کر زمینی ساخت کے متعلق کوئی بھی حتمی نظریہ پیش کیا جا سکتا۔
(ایسا بھی نہیں ہے کہ اسپیس ٹیکنالوجی اور دوربینوں کی ایجاد سے پہلے کسی کو پتہ نہیں تھا کہ زمین گول ہے۔ یونانی فلکیاتدانوں نے اسپیس ٹیکنالوجی اور دوربینوں کی ایجاد سے قبل ہی اپنے مشاہدات و تجربات سے زمین کے گول ہونے کا نظریہ پیش کر دیا تھا)
انسان کے اندر یہ ایک فطرتی پہلو ہے کہ انسان کسی بھی چیز کی ظاہری حالت کو ترجیح دینا اور اس کی تصدیق کرنا پسند کرتا ہے۔ اسی لئے پہلے پہل انسان نے جب دیکھا کہ ہم جس زمین پر بستے ہیں یہ ہمیں سنبھالے ہوئے ہے۔ ہم اس پر جہاں بھی چل پھر کر یا (جانوروں وغیرہ پہ) سفر کر کے جاتے ہیں تو ہمں ہر جگہ سے ہر سمت کو زمین سیدھی (Flate) ہی نظر آتی ہے (پہلے پہل انسان زیادہ سفر کرنے سے اس لئے بھی ڈرا کرتے تھے کہ مبادا کہیں سفر کرتے کرتے ہم زمین کے آخر تک پہنچ کر "نیچے" ہی نا گر جائیں) لہذا انسان نے اسے چپٹا تصور کر لیا اور بہت عرصہ تک زمین کو چپٹا یعنی فلیٹ ہی مانا جاتا رہا۔
پھر انسان اور انسان کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی کے قدم زمین سے بلند ہونا شروع ہوئے۔ انسان نے خلاء کی گُھپ اندھیری کھائیوں میں چھلانگ لگائی۔ خود کو خلائی وسعتوں کے انجان راستوں پر محوِ سفر کیا۔ ٹیکنالوجی نے زینہ بزینہ ترقی کی راہ پکڑی۔ خلائی گاڑیاں زمین سے باہر نکل کر خلاء کی طرف سفروں پر نکلنے لگیں۔ جہاں بہت سے عجائبات کا مشاہدہ انسان نے اپنی آنکھ سے کیا وہیں انسان نے اپنی آنکھ سے اپنے گھر یعنی زمین کو بھی ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں کلومیٹر دوری سے دیکھا۔ مختلف طریقوں سے جانی گئی زمینی ساخت کو عین الیقین حاصل ہوا۔ یعنی انسان نے اپنے مَسکن کو خلاء کی دوریوں سے دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیرِ نظر زمین کی یہ تصویر دسمبر 1972ء کو چاند کی طرف جاتے ہوئے خلائی مِشن Apoll 17 اسپیس کرافٹ کے کیمرہ سے لی گئی ہے۔ زمین کی یہ تصویر خلائی سفر کی تاریخ میں سب سے منفرد اور اچھی تصویر مانی جاتی ہے۔ یہ تصویر زمین کی سطح سے 29000 انتیس ہزار کلومیٹر کی دوری سے لی گئی ہے۔ بعد میں زمین کی اس نایاب تصویر کو The Blue Marble کا نام دیا گیا۔
اس تصویر کی سطح پر نظر آنے والے مناظر کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ "سب سے اوپر عرب ممالک نظر آ رہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کو علیحدہ کرتی ہوئی ایک سمندری لائن بھی آپ کو نظر آ رہی ہے۔ سمندر کے اس حصے کو Persian Gulf کہا جاتا ہے۔ اس سے آگے پھر سعودی عرب اور مصر و افریقی ممالک کے درمیان میں ایک سمندری پاٹ نظر آ رہا ہے جسے Red Sea کہا جاتا ہے۔ بائیں طرف نسواری Brown رنگ میں ایک خطہ نظر آ رہا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ریگستان The Sahara desert ہے۔ جو کہ تقریباً درجن سے زائد افریقی ملکوں کی سرحدوں کو چُھوتا ہے۔ اس کا کل رقبہ 46 لاکھ مربع کلومیٹر سے بھی زائد ہے۔ اس سے آگے ساؤتھ افریقہ اور اس کے آس پڑوس کے ممالک ہیں۔ سبز رنگ میں نظر آنے والا علاقہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا "افریقی جنگل" ہے۔ ساتھ سمندر میں ایک سبز رنگ کا جزیرہ نظر آ رہا ہے، یہ دراصل براعظم افریقہ کا ملک "مڈغاسکر" ہے۔
زمین کے نچلے حصے پر نظر آنے والا سفید خطہ دنیا کا سب سے بڑا برفانی ویرانہ اور دنیا کا پانچواں سب سے بڑا برِاعظم "انٹارکٹِکا Antarctica" ہے۔ انٹارکٹِکا میں جو کم سے کم درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے، وہ منفی 89 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس برِاعظم کا کُل رقبہ ڈیڑھ کروڑ مربع کلومیٹر سے کچھ ہی کم ہے۔ اس قدر وسیع عریض خطے میں سے صرف اور صرف دو لاکھ اسی ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ برف سے خالی ہے۔ باقی تمام کا تمام خطہ برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ زمین کی سطح سے اوپر روئی کے گالوں کی طرح نظر آنے والے یہ ہمارے بادل ہیں۔ جو ہر وقت زمین کے مختلف حصوں پر چکر لگاتے رہتے ہیں"
یہ تصویر ہماری زمین کی ایک منفرد اور خوبصورت تصویر ہے۔ یہ بہت اہم تصویر بھی ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کیوں اہم ہے؟
کیوں کہ اس تصویر میں موجود "اسی سیارے پر بیٹھ کر میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں اور اسی سیارے پر بیٹھ کر آپ میری یہ تحریر پڑھ رہے ہیں"
0 Comments