Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Wonders of the Universe part 2

Wonders of the Universe part 2

2۔ معلوماتِ اَرض (زمین کی بنیادی معلومات)
سب سے پہلے ہمارے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ زمین ایک سیارہ ہے، ستارے اور سیارے میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ستارہ اپنی روشنی خود پیدا کرتا ہے جب کہ سیارہ ستارے کی روشنی سے روشن رہتا ہے۔ مزید یہ کہ سیارہ ستارے کی کشش ثقل کے کنٹرول میں ہوتا ہے اور اپنے کام سے کام رکھتا ہے کسی اور اوبجیکٹ کے مدار میں دخل اندازی نہیں کرتا (کائنات میں آوارہ سیارے بھی پائے جاتے ہیں، جو کہ کسی ستارے کے گرد نہیں گھومتے۔ بلکہ خلا میں محوِ آوارگی رہتے ہیں)
زمین حیاتِ انسانی کا واحد مَسکن اور ضروریاتِ زندگی سے مالا مال، کائنات کے اس وسیع و عریض فلکیاتی جنگل میں زندگی کی گہما گہمی سے بارونق اور مُزیّن، بے پناہ وسعتوں پر پھیلی اس کائنات میں لگ بھگ بارہ ہزار سات سو بیالیس کلومیٹر ڈائی میٹر رکھنے والا ہمارا سر سبز و شاداب اور پانی سے بھرپور سیارہ ہے۔
جس طرح زمین پر بعض علاقے تمام موسموں اور درجہ حرارت کی وجہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں اسی طرح نظام شمسی کے تمام سیاروں میں زمین بھی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ مثلا زمین سے سورج کی طرف نظر ڈالیں تو عطارد اور زہرہ جل رہے ہیں اور دوسری طرف کے بعض سیارے (جیسے یورینس نیپچون) اس قدر ٹھنڈے ہیں کہ انسان کا ان سیاروں پر زندہ رہنا ناممکن ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ زمین کے پاس وہ معتدل و سنہری علاقہ ہے جو پورے نظام شمسی میں کسی اور سیارے کے پاس نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے سیارے یعنی زمین کا ہمارے ستارے (سورج) سے اوسط فاصلہ چودہ کروڑ چھیانوے لاکھ کلومیٹر ہے۔ زمین سورج کے گرد ہی چکر لگاتی ہے ایسا بالکل نہیں بلکہ زمین سورج کے گرد چکر لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے محور کے گرد بھی گھومتی ہے۔ سورج کے گردایک لاکھ آٹھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک چکر پورا کرنے میں زمین کو تین سو پینسٹھ دن لگتے ہیں۔ اب ہمارے ورطہ حیرت میں مبتلا ہونے کا وقت ہے کہ جب ہم تین سو پینسٹھ کو چوبیس کے ساتھ ضرب دیں گے۔ ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہیں اور سال میں تین سو پینسٹھ دن ہیں۔ زمین اپنے مدار پر ایک گھنٹے میں ایک لاکھ آٹھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرتی ہے اور ایک سال میں آٹھ ہزار سات سو ساٹھ گھنٹے ہیں۔ اب ہم زمین کے ایک گھنٹے میں طے کئے گئے فاصلے کو ایک سال میں موجود 8760 گھنٹوں سے ضرب دیں گے۔ زمین سورج کے گرد اپنے مدار پر ایک سال میں چورانوے کروڑ ساٹھ لاکھ کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے۔
سمندر پہاڑ دریا جھیلیں اور جنگل و صحرا، الغرض کہ زمین پر موجود ہر ہر چیز زمین کے ساتھ ہر وقت ایک مسافر کی حالت میں رہتی ہے۔ گویا زمین ایک بہت بڑے خلائی جہاز کی مانند ہمیں (بشمول ہر چھوٹی بڑی چیز کے) ہر وقت خلاء کی لامحدود وسعتوں میں لئے پھرتی ہے مگر شُتر بے مہار کی طرح نہیں بلکہ ایک خاص متعین کئے ہوئے اپنے مخصوص راستے پر۔ تخلیقِ زمین کے دن سے لے کر زمین کا یہ سفر جاری ہے اور زمین کے فنا تک یہ سلسہ یونہی بغیر رکے بغیر تھمے جاری و ساری رہے گا۔
زمین کا سورج کے گرد مدار ہر طرف سے ایک جیسا نہیں ہے بلکہ زمین کا مدار ایک طرف سے سورج کے نزدیک اور دوسری طرف سے دور ہے۔ زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ پچاس لاکھ کلومیٹر تک بڑھتا گھٹتا ہے۔
رات اور دن کا آنا جانا صبح کے وقت سورج کے طلوع ہونے کا دلفریب نظارہ اور شام کے وقت غروب آفتاب کا حسین منظر دوپہر کے وقت آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنی اور زمین کے باسیوں کو تڑپا دینے والی حدت و شدت سے بھرپور دھوپ۔ یہ سب ہی کچھ یونہی نہیں ہے بلکہ ایک مستحکم نظام کے تحت ہوتا ہے۔ زمین اپنے محور پر چار سو ساٹھ 460 میٹر پر سیکنڈ یا ایک ہزار 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتے ہوئے تقریبا چوبیس 24 گھنٹے میں ایک چکر پورا کرتی ہے۔ اس دوران زمین اپنے مدار پرکم و بیش چھبیس لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتی ہے۔ زمین کا اپنے محور کے گرد گھومنا ہمیں اس لئے معلوم نہیں ہوتا کہ ہم بذات خود زمین کے اوپر رہتے ہوئے اس کی ہر ہر حرکت کے ساتھ متحرک رہتے ہیں۔
فرض کیجیے آپ ایک آرام دہ گاڑی پر محو سفر ہیں۔ ایسی گاڑی کہ جو کہ بہت زیادہ رفتار سے سفر کر رہی ہے اور وہ اس قدر آرام دہ ہے کہ بہت زیادہ رفتار ہونے کے باوجود اس کے اندر رکھا ہوا پانی سے بھرا گلاس بھی سکون میں ہو تو ایسے میں مسافر کو گاڑی کا تیز رفتاری سے چلنا کیسے معلوم ہو گا۔ زمین اپنے اس گردشی سفر کے دوران اس گاڑی سے بھی زیادہ آرام دہ ہے (کیوں کہ زمین کسی مادی چیز پر محوِ سفر نہیں ہے، بلکہ خلا میں سفر کر رہی ہے۔ کسی چیز کو رسی سے باندھ کر ایک ہی رفتار سے گھمائیں، گردشی حرکت کے باجود اس چیز کی سطح پر لڑکھڑاہٹ/تھڑتھڑاہٹ نہیں ہو گی۔ زمین بھی ایسے ہی سورج کی کششِ ثقل سے بندھی ہوئی حالتِ گردش میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کی محوری گردش معلوم کرنی ہو تو رات آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھتے رہیے۔ چند لمحوں میں سر پر موجود مشکل نظر آنے والا ستارہ مغرب کی طرف دو قدم آگے بڑھ چکا ہو گا۔ آپ کسی ویران جگہ میں پھنسے ہیں جنگل صحرا یا تا حد نگاہ پھیلے کسی برفانی علاقے میں اور آپ کے پاس راستہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔ ایسے میں زمین کا شمالی قُطب (North pole) معلوم کرنا ہو تو آسمان کے چاروں کناروں پر نظر ڈالیے۔ ذرا نظر اٹھا کر کے دیکھیے۔ درمیانے درجے کی روشنی رکھنے والا ستارہ اپنی جگہ سے بالکل بھی ادھر ادھر نہیں ہو رہا ہے تو سمجھ لیجیے کہ یہی زمین کا شمالی حصہ ہے اور جو ستارہ اپنی جگہ سے (ایک دو گھنٹہ بعد بھی) حرکت نہیں کر رہا وہ قطب ستارہ ہے جسے Polaris ستارہ کہتے ہیں۔ زمانہ قدیم کے لوگ راستہ معلوم کرنے کے لیے اس قطبی ستارے سے بھی فائدہ اٹھایا کرتے تھے اور ایسا اب بھی کیا جا سکتا ہے۔
زمین کے قطبین کے علاقوں میں بعض خطے ایسے بھی ہیں کہ جن میں چھ مہینے دن بسیرا کیے رکھتا ہے اور چھ مہینے تک رات کسی رانی کی طرح برف پوش علاقوں پر حکمرانی کرتی ہے۔ ایسا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ زمین اپنے محور کے گردصرف دائیں سے بائیں گھومتی ہے اوپر سے نیچے یا نیچے سے اوپر کی طرف نہیں۔ سورج کے سامنے بالکل سیدھی بھی نہیں بلکہ ترچھی حالت میں۔ یعنی زمین اپنے محور پر 23 اعشاریہ 5 فیصد تک جھکی ہوئی ہے اسی لیے زمین کے قطبین پر رات اور دن چھ چھ ماہ بعد جلوہ افروز ہوتے ہیں۔
زمین کے قُطبین پر چھ چھ ماہ کے دن کچھ خاصے گرم اور دھوپ والے نہیں ہوتے۔ دور کنارے کی طرف سے سورج کی روشنی اور حرارت گھنی ایٹماسفئیر (atmosphere) سے لڑتے ہوئے قُطبین کے اُن برفانی اور یخ بستہ علاقوں کو گرم کرنے کی اپنی سی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ قُطبین کے علاقوں میں انٹارکٹکا، آرکٹک، گرین لینڈ، ناروے، کینڈا، ارجنٹائن اور الاسکا وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔ محوری گردش کے دوران زمین کے جو علاقے مکمل طور پر سورج کے سامنے رہتے ہیں ان کا درجہ حرارت بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ افریقہ، جنوبی ایشیا اور امریکہ کے کچھ خِطے۔
زمین کم و بیش 24 گھنٹوں میں اپنے محور کے گرد ایک چکر پورا کرتی ہے۔ اس چکر کے دوران زمین کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے، جس سے رات اور دن بنتے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ زمین اپنے محور پر ایک طرف کو جھکی ہوئی ہے۔ زمین کے اسی جُھکاؤ کی وجہ سے موسم بدلتے ہیں۔ دن اور رات کے دورانیے میں فرق بھی اسی جھکاؤ کی وجہ سے آتا ہے۔ یعنی مدار (Orbit) پر چکر لگانے کے دوران زمین کے جو علاقے سورج کے بالکل سامنے رہتے ہیں، وہ گرم بھی ہیں ان پر دن کا دورانیہ بھی لمبا ہے اور ان علاقوں میں سردیوں کا سیزن بھی بس نام کا ہی ہوتا ہے۔ لیکن جو علاقے زمین کے دونوں قطبین پر ہوتے ہیں یا قطبین کے بالکل نزدیک ہیں ان کے دن اور راتیں کئی کئی مہینے کی ہوتی ہیں۔ وہ کیسے؟

اس پر تھوڑا غور کریں۔ زمین کے گھومنے کی وجہ سے زمین کے اوپری (شمالی) قطب والے علاقوں سے سورج کی روشنی غائب نہیں ہو گی (ایسا صرف زمین کے جھکاؤ کی وجہ سے ہے) اور زمین کا جو قطب نیچے ہے (یعنی جنوبی قطب) اس پر اس جھکاؤ کی وجہ سے روشنی نہیں پڑے گی۔ ایسا کب تک رہے گا؟ جب تک کہ زمین اپنے مدار پر چلتے ہوئے اپنی موجودہ پوزیشن کے بالکل مخالف سِمت میں نہیں آ جائے گی تب تک دونوں قُطبین کے موسم اور دن و رات اپنی موجودہ حالت پر برقرار رہیں گے۔ اور جب زمین اپنی موجودہ پوزیش کے سامنے والی جگہ (مُخالف سِمت) پر پہنچ جائے گی تو پھر نیچے والے قطب پر کئی ماہ سورج جگمگاتا رہے گا اور اوپر والا قُطب کئی ماہ اندھیرے یعنی رات کی حالت میں رہے گا۔ 









Post a Comment

0 Comments

Defence Housing Authority DHA Karachi Jobs 2021