Wonders of the Universe part 4
4۔ زمین کا کُرہ ہوائی (Earth's Atmosphere)
ایک محتاط اندازے کے مطابق زمین پر اسی سے نوّے لاکھ اقسام کی زندگی موجود ہے۔ زمین پر زندگی کیوں موجود ہے؟ یہ سوال سائنس کا نہیں ہے۔ زمین پر زندگی کیسے موجود ہے؟ یہ سوال سائنس کا ہے اور اس کے جواب کی تلاش کے لیے ہم انسان دہائیوں نہیں بلکہ صدیوں سے کوششیں کر رہے ہیں اور ہر آنے والا لمحہ ہمارے سامنے اس جواب سے جُڑے نت نئے پہلو کھولتا چلا جا رہا ہے۔ زمین پر زندگی بہت آسانی سے پَنَپ رہی ہے (اس کی وجہ کیا ہے؟) اس کے بہت سارے اسباب ہیں۔ مگر اس کی اہم وجہ "ایک" ہی ہے اور وہ وجہ زمین کے ارد گرد زمین کے کُرہ ہوائی/فضاء (Atmosphere) کا موجود ہونا ہے۔
نوٹ : زمین کے ارد گرد موجود اس غلاف کو کُرہ ہوائی اور فضاء۔۔ دونوں ناموں سے بلایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین سو چھیالیس برس قبل 1674 میں John Mayow نے زمین کے ارد گرد مختلف گیسوں کے موجود ہونے کا پتا لگایا۔ تب زندگی مصنوعی رنگینیوں سے خالی تھی مگر زندگی کو قدرتی رنگوں سے رنگنے والی زمین کی یہ فضاء (جسے ہم کُرہ ہوائی بھی کہتے ہیں) John Mayow نے ڈھونڈ لی تھی۔ اس کے بعد 1913 میں فرانس کے دو سائنسدانوں Charles Fabry اور Henry Buisson نے زمین کے کُرہ ہوائی کا سب سے اہم اور زندگی کی حفاظت کرنے والا حصہ دریافت کیا، جسے آج ہم اوزون Ozon layer کے نام سے جانتے ہیں۔
زمین کے ارد گرد موجود اس کا کُرہ ہوائی بہت زیادہ وُسعت کا حامل ہے۔ زمین کا کُرہ ہوائی مختلف گیسوں اور ڈسٹ پارٹیکلز وغیرہ پر مشتمل ہے۔ زمین کی فضاء میں 78 فیصد نائٹروجن اور 21 فیصد آکسیجن موجود ہے۔ 0 اعشاریہ 9 فیصد ارگون بھی پائی جاتی ہے۔ 0 اعشاریہ 1 فیصد میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، اوزون، زینون، کرپٹون، نیون، آئیوڈین، کاربن مونو آکسائڈ اور آمونیا وغیرہ موجود ہیں۔ گیسوں (اور ڈسٹ پارٹیکلز) کے اس آمیزے کو Atmosphere کہتے ہیں۔ فضاء کے نم حصے میں قلیل مقدار میں پانی کے بخارات بھی پائے جاتے ہیں۔ گیسوں پر مشتمل اس فضاء نے زمین کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ ان گیسوں اور آبی بخارات کے علاوہ زمینی فضاء میں تین چیزیں اور بھی پائی جاتی ہیں۔ زمین سے اٹھنے والی گرد و غبار کے ننھے ذرّات کہ جنہیں ہوا بآسانی اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے اور پھر وہ زمینی فضاء کاحصہ بن جاتےہیں۔ دوسری چیز سمندروں سے بخارات کے ساتھ اوپر اٹھنے والے نمک کے چھوٹے چھوٹے ذرّات اور تیسری چیز Pollen ہے (پولن pollen کیا ہے؟ پولن پھولدار پودوں، درختوں اور گھاس وغیرہ کا میل فرٹیلائزنگ ایجنٹ ہے۔ جو کہ ہوا کے دوش پر سفر کر کے فضاء کا حصہ بن جاتا ہے)
ہم جیسے جیسے زمین سے دور ہوتے جائیں گے، زمین کی فضاء میں تبدیلیاں ہوتی چلی جائیں گی۔ زمینی فضاء کی انہی تبدیلیوں، درجہ حرارت کے مختلف ہونے اور فضاء کے تمام علاقوں کی الگ الگ خُصوصیات کی بِنا پر سائنسدانوں نے اِس فضاء کو چند ایک اہم تَہوں یا پَرتوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمینی فضاء یا کُرہ ہوائی کی پہلی پَرت Troposphere کہلاتی ہے۔ یہ پَرت زمین کی سطح سے شروع ہو کر 8 سے 15 کلومیٹر اونچائی تک پھیلی ہوئی ہے۔ زمین کے مختلف خطوں پر اس پَرت کی موٹائی میں فرق بنا رہتا ہے۔ ہمارے موسم، بادل اور آندھیاں وغیرہ اسی میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ لہذا زمین کی فضاء کا یہ حصہ ہمیشہ موسمیاتی تغیّر و تبدل کو سہتا رہتا ہے۔ اسی حصے میں ہمارے ہوائی جہاز اُڑتے ہیں۔ زمین کی فضاء کا یہ حصہ زمین کے قریب گرم اور زمین سے اوپر ٹھنڈا ہوتا چلا جاتا ہے۔
زمینی فضاء کا یہ حصہ Troposphere کے اختتام سے شروع ہو کر زمین سے 50 کلومیٹر کی اونچائی تک پھیلا ہوا ہے۔ جنگی طیارے زمینی فضاء کے اسی حصے میں پرواز کرتے ہیں۔ زمینی فضاء کے اس حصے کے اندر اوزون کی تہہ پائی جاتی ہے۔ جو کہ زمین پر زندگی موافق ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے (اوزون پَرت کے متعلق گفتگو آخر میں ہو گی)
آپ لاہور میں بیٹھ کر چھانگا مانگا جنگل کے قریب جلتی ہوئی کوئی چیز دیکھنا پسند کریں گے؟ (آپ کا جواب یقینا یہی ہو گا کہ "ضرور") لیکن اس جواب سے پہلے آپ یہ بھی ضرور سوچیں گے کہ میں نے اس فلکیاتی آرٹیکل میں یہ کیسی بات شروع کر دی۔ دراصل بات یہ ہے کہ زمین کی سطح اور میسوسفئیر پَرت کا فاصلہ کم و بیش لاہور اور چھانگا مانگا جنگل کے مابین موجود فاصلے جتنا ہی بنتا ہے۔ میسوسفئیر سطح زمین سے اوپر 50 کلومیٹر سے شروع ہو کر تقریباً 85 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ میسوسفئیر کا درجہ حرارت انتہائی کم رہتا ہے۔
آپ نے زندگی میں آسمان پر یقیناً بہت بار جلتے ہوئے شہابیے Meteorites دیکھے ہوں گے۔ جنہیں شُوٹنگ سٹارز اور ٹوٹتے ہوئے تارے بھی کہتے ہیں۔ خلا سے آنے والے پتھر یعنی شہابیے جب زمینی فضاء میں داخل ہو کر میسوسفئیر تک آتے ہیں تو وہیں جل کر بھسم ہو جاتے ہیں۔ یعنی آپ جب بھی کوئی ٹوٹتا ہوا تارا (بھسم ہوتا ہوا شہابیہ) دیکھتے ہیں تو اس شہابیے اور آپ کے درمیان (عموماً) اتنا فاصلہ ہوتا ہے، جتنی دوری لاہور شہر اور چھانگا مانگا جنگل کے مابین ہے۔
فضاء کے اس حصے کا نام اس کی خصوصیت کو عیاں کرتا ہے۔ یہاں درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے۔ زمین کے کسی بھی گرم ترین حصے سے بھی کہیں زیادہ۔ آپ نے اگر زمین کے شمالی قُطب کی روشنیاں (Aurora) دیکھی ہیں تو وہ روشنیاں سورج کی شمسی ہواؤوں اور زمین کےمقناطیسی میدان کے ٹکراؤ سے یہیں تھرموسفئیر پَرت میں بن کر قطبین کے گرد خوصورت روشنیوں کا ہالہ بناتی ہیں۔ ہمارے بھیجے ہوئے مصنوعی سیارچے (Sttelelits) بھی زمینی فضاء کے اسی حصے میں محوِ گردش رہتے ہیں۔
زمینی فضاء کی یہ اہم پَرت تھرموسفئیر اور ایگزوسفئیر کے درمیان پائی جاتی ہے۔ Ionosphere اور thermosphere کو ایک ساتھ یعنی ایک پَرت بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ تھرموسفیر کے درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ اسی حصے میں موجود ہے۔ یہاں گرمی کیوں زیادہ ہے؟ یہاں گیسوں کے مالیکیولز ایٹم اور آئنز میں کنورٹ ہوتے ہیں۔ جس سے حِدّت و حرارت پیدا ہوتی ہے۔ زمینی فضاء کا یہ حصہ ساڑھے نو سو کلومیٹر کی اونچائی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس حصے میں دن کے وقت سورج سے آنے والی تابکار شعائیں جذب ہوتی ہیں، جو کہ رات کے وقت یہاں سے خارج ہونا شروع ہو جاتی ہیں (اس حصے کا درجہ حرارت زیادہ ہونے میں یہ عمل بھی کارفرما ہے)
آپ اس وقت اپنے کسی پیارے سے ہزاروں کلومیٹر دور ہونے کے باوجود انٹرنیٹ کے ذریعے بات چیت کر رہے ہیں، آپ اس وقت فیسبک کھول کر میری یہ تحریر پڑھ رہے ہیں یا پھر آپ ڈِش اینٹینا کے ذریعے اپنے ٹیلی ویژن پر انٹرنیشنل چینلز دیکھ رہے ہیں۔۔۔ یہ سب ہی کچھ ریڈیو مواصلات کی بدولت ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ اور زمینی فضاء کا یہ حصہ ہماری دنیا میں موجود Radio communication system کو ممکن بناتا ہے۔
یہ ہماری زمینی فضاء کی آخری اور سب سے بڑی پَرت ہے۔ یہ Ionosphere کے بعد شروع ہو کر دس ہزار کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں سب سے ہلکی (ہائیڈروجن اور ہیلیم) گیسیں پائی جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج سے ہماری طرف جو روشنی آتی ہے، اس میں مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ ان تمام رنگوں کی ویولینگتھ Wavelength اور فریکوئنسی Frequency مختلف ہوتی ہے۔ الیکٹرومیگنیٹک ویوز کے (Visible light) والے حصے میں جس رنگ کی ویولینگتھ بڑی ہو گی، اس کی فریکوئنسی low ہو گی۔ جس رنگ کی ویولینگتھ چھوٹی ہو گی، اس کی فریکوئنسی high ہو گی۔ سورج سے زمین کی طرف الٹراوائلٹ ریڈی ایشنز بھی آتی ہیں۔ جن کی ویولینگتھ 290 نینومیٹر کی ہوتی ہے، جو کہ ارضی حیات کے لیے بہت نقصاندہ ہیں۔ اوزون تہہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں آکسیجن کے تین ایٹمز (O3) موجود ہیں جو کہ سورج کی طرف سے آ رہی تابکار اور خطرناک شعاعوں کو جذب کر لیتے ہیں۔ باقی کی روشنی اور حِدّت کو ہم تک پہنچنے دیتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ سیارہ عطارد Mercury planet سورج کا قریب ترین سیارہ ہے۔ مگر اس پر فضاء (Atmosphere) موجود نہیں ہے۔ جس بنا پر عطارد کی سطح کا درجہ حرارت دن کے وقت 430 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے اور فضاء نا ہونے کی وجہ سے یہ ساری تپش اور حرارت سورج کے غائب ہوتے ہی لمحوں میں خلا کے اندر بکھر جاتی ہے۔ دن کے وقت جلتی ہوئی سیارہ عطارد کی سطح رات کے وقت منفی 180 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرات سے برف کے ٹھوس گولے کی مانند سرد ہو جاتی ہے۔


0 Comments